صدام حسین اور مقام عبرت

عراق کی تاریخ میں اہم کردار ادا کرنے والے سابق معزول صدر صدام حسین کی موت کو تقریباً 17 برس بیت گئے ،انہیں 148 افراد کے قتل عام کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی ۔

 صدام حسین عراق کے شہر ہرات کے ایک غریب گھرانے میں 1937ء کو پیدا ہوئے اور 16 جولائی 1979ء کو عراق کے صدر بنے اور 9 اپریل 2003 تک عراق پر بلا شرکت غیرے حکومت کی۔

 گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد عراق کو سرکش ریاست قرار دیا گیا، امریکی صدر بش ، برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور اتحادی ممالک نے دعویٰ کیا کہ صدام حسین وسیع تباہی کے ہتھیار حاصل کر رہے ہیں جو خطے میں مغربی مفادات کیلئے نقصاندہ ہے ۔

 اتحادی افواج نے مارچ 2003 میں عراق پر حملہ کر کے صدام حسین کی حکومت ختم کر دی جبکہ ان کی گرفتاری کا اعلان دسمبر 2003 میں کیا گیا۔

 امریکی حکام نے صدام حسین کی گرفتاری کے بعد 30 جون 2004 کو انہیں عراق حکام کے حوالے کر دیا گیا جس کے بعد ان پر 1982ء میں دجیل میں148 افراد کے قتل عام کا مقدمہ چلایا گیا ۔
 پانچ نومبر 2006 کو صدام حسین کو پھانسی کی سزا سنائی اور 30 دسمبر کی صبح عراق کے معزول صدر صدام حسین کو پھانسی دینے کے بعد تکریت کے قریب آبائی گاؤں ال اجوا میں دفن کر دیا گیا۔


 صدر صدام حسین نے گرفتاری کے بعد عدالت کو یہ درخواست کی کہ اسے قید کے دوران نہ تو کپڑے دهونے اور نہ ہی سگریٹ پینے کی اجازت ہے۔ اسے پچھلے دو سال سے جوتوں کا صرف ایک جوڑا دیا گیا ہے جو کب کا پھٹ چکا ہے۔ خیر عدالت نے یہ سارے مطالبات منظور کر لیے اور یوں جوتوں کے نئے جوڑے فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جیل کے اندر کپڑے دهونے اور سگریٹ پینے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

صدام حسین عراق کا وہ حکمران تھا جو درجنوں محلات، ہزاروں قیمتی سوٹوں سینکڑوں جوتوں،هزاروں خوشبو کی بوتلوں اور لاتعداد قیمتی گاڑیوں کا مالک تھا
جس نے اپنی مونچھیں رنگنے کے لیئے کئی ماهرین کی ٹیم رکھی ہوئی تھی جس کے سگار هوانا سے آتے تھے جس کے لیے مشروبات فرانس کی کمپنیاں بناتی تھی جس کے کپڑوں کا ناپ لینے کے لیے ٹیلر لندن سے آتا تھا۔ جس کے صرف کپڑے دهونے کے لیے بغداد میں رائل واشنگ سینٹر بنایا گیا تھا جس کے دهوبی کو اعزازی کرنل کا رینک دیا گیا تھا۔ جس کے کسی بھی سوٹ کی باری تین سال کے بعد آتی تھی۔

میرا دل چاهتا ہے کہ صدام حسین مرحوم کی یہ تصویر جسمیں وہ خود اپنے ہاتھوں سے کپڑے دھو رہا ھے۔ دنیا کے تمام حکمرانوں کے بیڈ روم میں لگوا دوں اور ان سے عرض کروں کہ انسان آخر انسان ہے وہ خدا کبھی نہیں بن سکتا اور دنیا کے ہر صاحب اقتدار کا اقتدار ایک دن ختم هو جانا ہے اور دنیا کے ہر حکمران کو ایک نہ ایک دن اپنے اقتدار کے محل سے باهر ضرور آنا ہے کبھی اپنے قدموں پر تو کبھی دوسروں کے کندهوں پر۔

Comments

Popular posts from this blog

ہوشیار ! آجکل کے آنلائن انوسٹمنٹ فراڈ

The story of Curiosity Rover.

چیٹ جی پی ٹی۔ Chat Gpt